کس لیے دشت میں گھر کوئی بنایا جائے
کس لیے دشت میں گھر کوئی بنایا جائے
پاس کیا ہے جو فصیلوں میں چھپایا جائے
میں جزیرہ ہوں مری پیاس بجھانے کے لیے
اک سمندر مرے اطراف بچھایا جائے
کسی صحرا میں بہا جائے ندی کی صورت
ابر بن کر کسی کہسار پہ چھایا جائے
روز چٹکے کسی امید کا غنچہ دل میں
روز پلکوں پہ کوئی خواب سجایا جائے
دکھ سے جلتے ہوئے اس دور میں جینے سے بڑا
معجزہ کونسا دنیا کو دکھایا جائے
بات کیا ہے کہ بایں خواری و آشفتہ دلی
چھوڑ کر ہم سے ترا شہر نہ جایا جائے
روشنی ہوں تو کہا جائے چراغ منزل
سنگ ہوں تو مجھے رستے سے ہٹایا جائے
پوچھتے رہتے ہیں یہ لوگ نہ جانے کیا کیا
ہم سے تو نام بھی اپنا نہ بتایا جائے
رہ گئی ہے یہی اک ہم سفری کی صورت
بوجھ ہو خواہ کسی کا بھی اٹھایا جائے
ہائے یہ دھوپ مچاتا ہوا ساون جس سے
کسی چٹان پہ سبزہ نہ اگایا جائے
آج مر جاؤں اگر میں تو عجب کیا خاورؔ
سو برس بعد مرا سوگ منایا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.