کس لیے صحرا کے محتاج تماشا ہوجیے
کس لیے صحرا کے محتاج تماشا ہوجیے
چاک کیجے سینے کو اور آپھی صحرا ہوجیے
کشتۂ لب ہو کے کیجے جاوداں اب زندگی
کیوں عبث منت کش خضر و مسیحا ہوجیے
چشم احول سب کو دیکھے ہے زیادہ آپ سے
عین بینائی ہے گر اس طرح بینا ہوجیے
کب تلک سرگشتہ رہیے دن کو مثل گرد باد
رات کو جوں شمع جلنے کو مہیا ہوجیے
اس قدر ہم دل گرفتہ ہیں کہ مشکل ہے بہت
اس کے بند جامہ وا ہونے پہ بھی وا ہوجیے
مجھ سے یہ محجوبی اور دشمن سے ایسا اختلاط
شرم کیجے بے وفائی میں نہ رسوا ہوجیے
آنا یوں تیوری چڑھائے منہ بنائے فائدہ
گر یہی صورت ہے مت تشریف فرما ہوجیے
بو الہوس کا یوں ہدف کیجے نشانہ تیر کا
غافل اپنی قدر سے بے درد اتنا ہوجیے
جوں جرس بام و در ہر خانہ سے اٹھے گا شور
مت سفر سے حشر برپا ساز سحا ہوجیے
خانہ ویراں کر کے دیوانے بنے تس پر رضاؔ
کچھ نہ ہوئے پھر بھلا کیا کیجئے کیا ہوجیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.