کس قدر بے کیف دنیائے دنی ہے صاحبو
کس قدر بے کیف دنیائے دنی ہے صاحبو
بے کسی ہے بے حسی ہے بے رخی ہے صاحبو
ہر کلی کے ہونٹ پر پیڑھی جمی ہے صاحبو
پیاس کے جنگل میں کتنی بیکلی ہے صاحبو
دیکھنا للچانا اور محروم رہنا آئے دن
انفعالی زندگی کیا زندگی ہے صاحبو
چاند محسن کش تھا سورج کو دبا کر کھا گیا
گو اسی کے دم سے اس میں روشنی ہے صاحبو
دوسروں کو روندیئے اور آگے بڑھتے جائیے
بعض لوگوں کے لئے سب کچھ یہی ہے صاحبو
بانس پر مجھ کو چڑھائیں لاکھ ارباب غرض
جانتا ہوں میں جو اصلیت مری ہے صاحبو
چل کے ریگستان میں دیکھیں سراب اندر سراب
خود فریبی میں قیامت دل کشی ہے صاحبو
شام کو چڑیوں کی چوں چوں رات کو مینڈک کا شور
کتنی اونچی کائناتی شاعری ہے صاحبو
کیوں مصر ہیں آپ میں سیدھی ڈگر ہی پر چلوں
میری شخصیت سے یہ تو دشمنی ہے صاحبو
سیر فردوس نظر کو منع فرماتے ہیں آپ
شیخ صاحب کے تخیل میں کجی ہے صاحبو
بادلوں میں خود فراموشی کے دم بھر کر اڑیں
مان جاؤ میری چھوٹی سی خوشی ہے صاحبو
جھانک کر دیکھا جو میں نے اندرون لا شعور
اس زمیں پر کس غضب کی زندگی ہے صاحبو
کس لئے مبہوت ہو خوش خوابیٔ ماضی میں تم
حال کی دل داریوں میں کیا کمی ہے صاحبو
اپنے اپنے دیکھنے کے ڈھنگ پر ہے منحصر
زندگی میں تازگی ہی تازگی ہے صاحبو
اس میں سوز دل ملا دو تو شفق بن جائے گی
یہ جو مطلع پر ذرا سی روشنی ہے صاحبو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.