کس سمت مڑ گئی تھی مجھے یاد آ گئی
کس سمت مڑ گئی تھی مجھے یاد آ گئی
ہاں ہاں وہ روشنی تھی مجھے یاد آ گئی
تتلی جو گر پڑی تھی مجھے یاد آ گئی
سبزے کو چومتی تھی مجھے یاد آ گئی
یادوں کے ایک باغ میں رکھے جوں ہی قدم
جتنی بھی زندگی تھی مجھے یاد آ گئی
پازیب کی صدا تھی جو دیکھا تو اک پری
پانی پہ چل رہی تھی مجھے یاد آ گئی
لوٹ آؤ تو بتاؤں جدا کیوں ہوئے تھے ہم
اک بات سرسری تھی مجھے یاد آ گئی
چرخے کو کاتتے ہوئے آخر گرہ کھلی
تصویر جو بنی تھی مجھے یاد آ گئی
کوئل کی کوک چلنے لگی جب ندی کے ساتھ
کیسے وہ بولتی تھی مجھے یاد آ گئی
منصور سے نکل کے جو پھیلی تھی چار سو
کس رخ کی روشنی تھی مجھے یاد آ گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.