کسے اب داستاں اپنی سنائیں
کسے اب داستاں اپنی سنائیں
مقابل آئنہ کے بیٹھ جائیں
جو آتا ہے گزر جاتا ہے پھر بھی
زمین دل کی خاک اب کیوں اڑائیں
ہزاروں لوگ تشنہ لب یہاں ہیں
وضو کیسے کریں کیسے نہائیں
اندھیرا ہی اندھیرا ہر طرف ہے
چراغ دل کہاں تک ہم جلائیں
اسی اک بات کا چرچا بہت ہے
جسے ہم نے تو چاہا تھا چھپائیں
چمن کا گوشہ گوشہ جل رہا ہے
کسی چھوڑیں یہاں کس کو بچائیں
زمیں کا ایک ٹکڑا ہے جہاں پر
ادب کے ساتھ چلتی ہے ہوائیں
مسلسل زخم کا پردہ کہاں تک
کہاں تک تیر کھا کر مسکرائیں
نظر کی شمع روشن کر رہا ہوں
نہ جانے کب ستارے ڈوب جائیں
ابھی اتنی محبت بھی بہت ہے
گئے وہ دن کہ تم کو آزمائیں
بچھونا بھی نہیں ہے آج طالبؔ
تڑپ غم نیند آنسو کیا بچھائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.