کسی بھی طور طبیعت کہاں سنبھلنے کی
کسی بھی طور طبیعت کہاں سنبھلنے کی
تو مل بھی جائے تو حالت نہیں بدلنے کی
خود اپنی ہم سفری سے بھی ہو گئے محروم
کہ آرزو تھی تجھے ساتھ لے کے چلنے کی
کسی طرح تو ملے قہر بیکسی سے نجات
کوئی تو راہ ہو اس کرب سے نکلنے کی
اسیر ہی رہے ہم پچھلے عہد ناموں کے
ہمیں خبر ہی نہیں تھی رتیں بدلنے کی
ہواؤں نے ہمیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا
کہ آرزو تھی ہمیں پھولنے کی پھلنے کی
بنا لیا ہمیں اپنی ہی طرح کا تو نے
ہمیں جو ضد تھی تری خواہشوں میں ڈھلنے کی
اداس شاموں کو کیا دیکھ دیکھ روتے ہو
ابھی تو آئیں گی راتیں لہو اگلنے کی
ایک ایسے وقت میں جب زندگی بھی موت لگے
ریاضؔ کون سی صورت ہو دل بہلنے کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.