کسی در پہ جانے کو جی چاہتا ہے
کسی در پہ جانے کو جی چاہتا ہے
وفا آزمانے کو جی چاہتا ہے
اٹھایا تھا جس بزم سے ہم کو اک دن
وہیں پھر بھی جانے کو جی چاہتا ہے
ہوئے مندمل زخم دل میرے لیکن
نئے زخم کھانے کو جی چاہتا ہے
مآل محبت سمجھتا ہوں پھر بھی
کہیں دل لگانے کو جی چاہتا ہے
ہیں کیسے مزے کے ترے جھوٹے وعدے
کہ پھر دھوکہ کھانے کو جی چاہتا ہے
وہ پھر آج کچھ ہم سے روٹھے ہوئے ہیں
انہیں پھر منانے کو جی چاہتا ہے
ہے مدت سے سونی مرے دل کی محفل
تمہیں سے سجانے کو جی چاہتا ہے
جو روشن ہیں محفل میں عقل و خرد سے
وہ شمعیں بجھانے کو جی چاہتا ہے
جو سوئے ہوئے دل میں ہلچل مچا دے
وہ طوفاں اٹھانے کو جی چاہتا ہے
حبیبؔ آگ بھر دیں جو سینے میں سب کے
وہ نغمے سنانے کو جی چاہتا ہے
- کتاب : نغمۂ زندگی (Pg. 63)
- Author : جے کرشن چودھری حبیب
- مطبع : جے کرشن چودھری حبیب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.