کسی کے دکھ کو ضرورت تھی پردہ پوشی کی
کسی کے دکھ کو ضرورت تھی پردہ پوشی کی
سو ہم نے سیکھ لی آخر زباں خموشی کی
گلاب جذبوں نے آخر اسے بھی گھیر لیا
کل اس کے ہاتھ میں دیکھی کتاب نوشی کی
میں ایسے شہر گریزاں میں جی رہا ہوں جہاں
نظر ملانا علامت ہے گرم جوشی کی
دکھوں سے کھیلتا رہتا ہے رات دن پاگل
دل تباہ کو عادت ہے عیش کوشی کی
ہمارے واسطے دریا نہ اپنا رخ موڑے
ہماری پیاس کو لت ہے سراب نوشی کی
کہیں لٹیرے سزائیں بھی کاٹتے ہوں گے
ہمارے ہاں تو روایت ہے تاج پوشی کی
ازل سے جبر کو ملتے رہے قصیدہ گو
نئی نہیں ہے کہانی قلم فروشی کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.