کسی کے گیسو پرپیچ پر دل دار بیٹھے ہیں
کسی کے گیسو پرپیچ پر دل دار بیٹھے ہیں
وہ اب کیا جیت سکتے ہیں جو بازی ہار بیٹھے ہیں
اسیران قفس کا حال اب دیکھا نہیں جاتا
تھکے ہیں پھڑپھڑا کر جان سے بیزار بیٹھے ہیں
دل آشفتہ دے دیں اب کسی کو جی میں آتا ہے
کہ اس کی بے خودی سے ہو کے ہم بیزار بیٹھے ہیں
خدارا اک نگاہ ناز ہی سے دیکھ لو ہم کو
گریباں پھاڑنے کو آج ہم تیار بیٹھے ہیں
کہاں باقی رہا وحشت میں شغل بے خودی کوئی
اڑا کر دھجیاں جامے کی ہم بے کار بیٹھے ہیں
کسی کی بزم میں بے خوف پھر جاتے ہیں غم کھانے
وہ ہوں گے اور چھپ کر جو پس دیوار بیٹھے ہیں
یکایک اپنی امیدوں کی دنیا لٹ گئی ساری
نظر پھرتے ہی ان کی ہم سے سب بیزار بیٹھے ہیں
تجھے ساقی ہے صدمہ آج پھر سے اپنی آنکھوں کا
دلوں کے جام خالی کر کے سب مے خوار بیٹھے ہیں
اٹھیں گے یہ جبھی جب خود قضا آ کر اٹھائے گی
جو اس کوچے میں زیر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں
ہمیں پروا نہیں ساقی ذرا بھی جام و مینا کی
کسی کی چشم میگوں دیکھ کر سرشار بیٹھے ہیں
بھلا کیوں کر رکھے پھر ان سے امید وفا کوئی
حسینان جہاں جب درپئے آزار بیٹھے ہیں
شب فرقت کہاں ہے چین ان آفت کے ماروں کو
یوں ہی تھامے کلیجہ آپ کے بیمار بیٹھے ہیں
دل مشتاق کہتا ہے چلو اب فیصلہ کر لیں
یہ سنتے ہیں کہ وہ کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.