کسی کے تیر نظر کا یہ دل نشانا ہوا
کسی کے تیر نظر کا یہ دل نشانا ہوا
لو ان کا اب تو خیالوں میں آنا جانا ہوا
یہ کون جوڑ رہا ہے اٹھا کے ہر ٹکڑا
کے میرے دل کو تو ٹوٹے ہوئے زمانا ہوا
کہ وقت نزاع نکلتی ہے روح جس طرح
وہ میرے جسم سے اس طرح سے روانا ہوا
وہ اس قدر مری آنکھوں کو دے گیا پانی
کہ سرد راتوں میں رخسار کو نہانا ہوا
جو اس میں آیا تھا وہ کیا دہکتا سورج تھا
سلگ کے خاک مرے دل کا آشیانا ہوا
ستارے توڑ کے میں اس کی مانگ بھرتا تھا
یہ آرزوؤں کا موسم بہت پرانا ہوا
یہ لگ رہا ہے خیالوں سے پھر وہ گزرے ہیں
ہماری آنکھ میں جب آنسوؤں کا آنا ہوا
اٹھایا اس نے تبھی جب اسے ضرورت تھی
گرایا اس نے نگاہوں سے جب گرانا ہوا
خود اپنے پیروں پے قاتل کے در پے آتا ہوں
لہو میں اپنے ہمیں جب کبھی نہانا ہوا
کہ قتل ہو گیا مقتول ساتھ قاتل کے
یہ وار اس کا مگر مجھ پہ عادلانہ ہوا
اویسؔ اب تو کچھ عادت سی ہو گئی ہے ہمیں
ہم ان کے پاس گئے جب بھی زخم کھانا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.