کسی کی آنکھ میں کیا ایک پل گزار آیا
کسی کی آنکھ میں کیا ایک پل گزار آیا
میں اپنی زیست کے رنج و الم اتار آیا
وہ جس کے نام پہ ہم منزلیں فدا کرتے
ہمیں وہ شخص کہیں راہ میں ہی مار آیا
شب فراق سے کہہ ڈالے درد دنیا کے
کہاں کا بوجھ تھا اور میں کہاں اتار آیا
کہ میری تیرہ شبی میں کوئی چراغ جلے
میں اس خیال سے راتیں کئی گزار آیا
سو اب تو دھوکہ ہی کھانا مرا مقدر ہے
یہ کس جگہ پہ مجھے لے کے اعتبار آیا
مجال ترک تعلق نہ ہو سکی ورنہ
خیال ترک تعلق تو بار بار آیا
اداس کمرے کی وحشت کی خیر ہو یا رب
ہم ایسے دشت نوردوں کو بھی قرار آیا
میں ایک عمر سے اپنی مخالفت میں ہوں
میں کیا کروں گا اگر اس طرف سے وار آیا
ہم ایک صحن میں پل کر بڑے ہوئے ہیں فہیمؔ
شجر پہ بور تو کاندھوں پہ میرے بار آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.