کسی کو پیکر مہتاب میں جو ڈھالا تھا
کسی کو پیکر مہتاب میں جو ڈھالا تھا
خیال و خواب کا وہ آخری سنبھالا تھا
ہر ایک شخص پہ پرچھائیں کا خیال ہوا
تری گلی میں عجب طرح کا اجالا تھا
نہ جانے کس لئے ظلمت نے اس پہ یورش کی
وہ آفتاب کہ جو خود ہی ڈھلنے والا تھا
اسی خطا پہ ہر اک خار نے قدم چومے
وہ ایک کانٹا ہی کیوں پاؤں سے نکالا تھا
کوئی بتاؤ کہ سورج کو یہ جھجھک کیوں ہے
ابھی کرن نے تو کہرے سے سر نکالا تھا
بلا سبب مجھے یادوں نے سنگسار کیا
سراب زیست سے میں کب نکلنے والا تھا
کبھی تو ہم نے بھی خوابوں کے بت تراشے تھے
ہمارے دل میں بھی الفت کا اک شوالہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.