کسی میں تاب نہ تھی تہمتیں اٹھانے کی
کسی میں تاب نہ تھی تہمتیں اٹھانے کی
جلے چراغ تو پلکیں جھکیں زمانے کی
جسے بھی دیکھیے اپنی انا کا مارا ہے
امید کس سے رکھے کوئی داد پانے کی
تری گلی میں بھی دار و رسن کا چرچا ہے
بدل گئی ہے ہوا کس قدر زمانے کی
چراغ کشتہ کی مانند نوحہ خواں یہ لوگ
بنے ہیں سرخئ آغاز کس فسانے کی
لرزتے ہاتھوں میں ساز شکستہ کس نے لیا
کہ جیسے ڈوب گئی نبض اک زمانے کی
فسانہ شرح طلب اس قدر نہ تھا لیکن
کہاں کہاں نہ اڑی خاک آشیانے کی
کچھ اور ہو گئے شاہینؔ زخم دل تازہ
وہ میری سعئ پریشاں انہیں بھلانے کی
- کتاب : Be-nishaan (Pg. 163)
- Author : wali aalam Shahiin
- مطبع : Dabistan-e-jadeed (1984)
- اشاعت : 1984
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.