کسی نئی طرح کی روانی میں جا رہا تھا
کسی نئی طرح کی روانی میں جا رہا تھا
چراغ تھا کوئی اور پانی میں جا رہا تھا
رکا ہوا تھا وہ قافلہ تو مگر ابھی تک
غبار اپنی ہی بے کرانی میں جا رہا تھا
مجھے خبر تھی وہ کیا کرے گا سلوک مجھ سے
سو میں بظاہر تو خوش گمانی میں جا رہا تھا
میں تنگئ دل سے خوش نہیں تھا اسی سبب سے
مکاں سے باہر کی لا مکانی میں جا رہا تھا
تم اپنی مستی میں آن ٹکرائے مجھ سے یک دم
ادھر سے میں بھی تو بے دھیانی میں جا رہا تھا
تری رکاوٹ سے بھی مرے پانو کیسے رکتے
کہ میں کسی اور سر گرانی میں جا رہا تھا
مرے لیے اجنبی تھا سیلاب خواب میں وہ
جو لفظ چپ چاپ موج معنی میں جا رہا تھا
سخن سے بیمار کیوں نہ ہوتا میں آخر اپنے
کہ لطف سارا تو خوش بیانی میں جا رہا تھا
ظفرؔ مرے خواب وقت آخر بھی تازہ دم تھے
یہ لگ رہا تھا کہ میں جوانی میں جا رہا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.