کسی سے بس کہ امید کشود کار نہیں
کسی سے بس کہ امید کشود کار نہیں
مجھے اجل کے بھی آنے کا اعتبار نہیں
جواب نامہ کا قاصد مزار پر لایا
کہ جانتا تھا اسے تاب انتظار نہیں
یہ کہہ کے اٹھ گئی بالیں سے میری شمع سحر
تمام ہو گئی شب اور تجھے قرار نہیں
جو تو ہو پاس تو حور و قصور سب کچھ ہو
جو تو نہیں تو نہیں بلکہ زینہار نہیں
خزاں کے آنے سے پہلے ہی تھا مجھے معلوم
کہ رنگ و بوئے چمن کا کچھ اعتبار نہیں
غزل کہی ہے کہ موتی پروئے ہیں اے نظمؔ
وہ کون شعر ہے جو در شاہوار نہیں
- کتاب : Noquush (Pg. B-301 E317)
- مطبع : Nuqoosh Press Lahore (May June 1954)
- اشاعت : May June 1954
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.