کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو
کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو
گلا کرو کہ گلا بھی نہیں رہا اب تو
وہ کاہشیں ہیں کہ عیش جنوں تو کیا یعنی
غرور ذہن رسا بھی نہیں رہا اب تو
شکست ذات کا اقرار اور کیا ہوگا
کہ ادعائے وفا بھی نہیں رہا اب تو
چنے ہوئے ہیں لبوں پر ترے ہزار جواب
شکایتوں کا مزہ بھی نہیں رہا اب تو
ہوں مبتلائے یقیں میری مشکلیں مت پوچھ
گمان عقدہ کشا بھی نہیں رہا اب تو
مرے وجود کا اب کیا سوال ہے یعنی
میں اپنے حق میں برا بھی نہیں رہا اب تو
یہی عطیۂ صبح شب وصال ہے کیا
کہ سحر ناز و ادا بھی نہیں رہا اب تو
یقین کر جو تری آرزو میں تھا پہلے
وہ لطف تیرے سوا بھی نہیں رہا اب تو
وہ سکھ وہاں کہ خدا کی ہیں بخششیں کیا کیا
یہاں یہ دکھ کہ خدا بھی نہیں رہا اب تو
- کتاب : Gumaan (Poetry) (Pg. 45)
- Author : Jaun Elia
- مطبع : Takhleeqar Publishers (2012)
- اشاعت : 2012
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.