کسی صورت جنوں کی فتنہ سامانی نہیں جاتی
کسی صورت جنوں کی فتنہ سامانی نہیں جاتی
بہار آتی ہے لیکن خانہ ویرانی نہیں جاتی
وہ یوں الطاف کرتے ہیں کہ جیسے باغ سے اکثر
خزاں معدوم ہو جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی
وہ آتے ہیں مگر میرا تڑپنا کم نہیں ہوتا
وہ ملتے ہیں مگر میری پریشانی نہیں جاتی
وہ یوں آتے ہیں جیسے گھر کی صورت تک نہیں بوجھی
وہ یوں ملتے ہیں گویا شکل پہچانی نہیں جاتی
شباب آیا تو آئی غیریت بھی ان کے حصہ میں
کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
وہی اصرار طفلانہ کہ دیکھیں درد دل ہم بھی
جواں ہونے کو آئے اور نادانی نہیں جاتی
حیات جدول بر آب میں کیا رنج کیا راحت
مگر اس آگہی پر بھی پریشانی نہیں جاتی
یقیناً آپ آئے ہیں یقیناً آپ ہی وہ ہیں
مگر مایوسیٔ پیہم کو حیرانی نہیں جاتی
بھلا اب کون ہے پرسان ارباب سخن بسملؔ
مگر پھر آپ کی خوئے غزل خوانی نہیں جاتی
محبت کا کرشمہ یوں بھی دیکھا ہے کبھی بسملؔ
کہ دریا خشک ہو جاتا ہے طغیانی نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.