کسی صورت سے میرے دل کی ویرانی نہیں جاتی
کسی صورت سے میرے دل کی ویرانی نہیں جاتی
گلی میں زندگی کی خاک اب چھانی نہیں جاتی
یہ میرے دل کا دریا بھی عجب دریائے وحشت ہے
اتر جاتا ہے لیکن اس کی طغیانی نہیں جاتی
وہی چہرے وہی گھر ہیں مگر کتنا تغیر ہے
وہی بستی ہے اور آنکھوں سے پہچانی نہیں جاتی
کبھی آباد ہونے کو ترس جاتا ہے شہر دل
کبھی آباد ہونے پر بھی ویرانی نہیں جاتی
خطا سے بڑھ کے احساس خطا نے کر دیا خستہ
پشیماں ہو کے بھی دل کی پشیمانی نہیں جاتی
شگفت گل کا مطلب ہے فنائے ذات تو پھر کیوں
گلوں کی آرزوئے چاک دامانی نہیں جاتی
ابھی تو اور کھائے گا فریب دوستاں احمدؔ
یہ دنیا ہے یہ آسانی سے پہچانی نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.