کتاب زیست کا دھندلا کور اتارتے ہیں
کتاب زیست کا دھندلا کور اتارتے ہیں
اب اس مقام پہ گرد سفر اتارتے ہیں
خزاں کا جو بھی ہوا تھا اثر اتارتے ہیں
چمن کے پھول چمن کی نظر اتارتے ہیں
دکھائیں کیسے مناظر افق کے آنکھوں کو
چلو زمین پہ شمس و قمر اتارتے ہیں
لہو میں اترا ہے آسیب اس لیے ہم اب
لہو نچوڑ کے ہر ایک شر اتارتے ہیں
اک آسمان جسے کہہ رہے ہیں لوگ ابھی
کہیں گے کیا وہ زمیں پر اگر اتارتے ہیں
اگر کہ خواب کی تعبیر دیکھنی ہو ہمیں
تو پہلے آنکھ سے سارے بھنور اتارتے ہیں
غم جہان غم یار دو کنارے ہیں
تو دیکھیے یہ تھپیڑے کدھر اتارتے ہیں
خود اپنے ہونے سے انکار کر دیا ہم نے
یوں اپنے ہونے کا اس دل سے ڈر اتارتے ہیں
پھر ایک دن مجھے تجسیم کر کے بولا اذانؔ
ہم اپنے فن میں فقط با ہنر اتارتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.