کتاب جلتی رہی صاحب کتاب گیا
عجب سلگتی سی تعبیر دے کے خواب گیا
عجیب جھوٹ کی خوشبو تھی مست رہتے تھے
گماں کی شاخ پہ باقی جو تھا گلاب گیا
سیاہیوں کا سمندر ہے اب تو چاروں طرف
وہ روشنی کا سفر منتظر سراب گیا
حیات جب بھی کسی امتحاں سے گزری ہے
سوال کرنے جو آیا تھا لاجواب گیا
تھا زخم دل کا مگر خونچکاں ہوئیں آنکھیں
وہ شخص مر نہ سکا خون بے حساب گیا
بدن کی پیاس تو جسموں کا قرب مانگے ہے
تمیز حسن گئی ذوق انتخاب گیا
چراغ دن میں جلاتے ہو کس لیے سرشارؔ
نظر کا نور گیا ہے کہ آفتاب گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.