کتنے ارماں کتنی امیدوں کے پیکر لے گیا
کتنے ارماں کتنی امیدوں کے پیکر لے گیا
اب کے پھر سیلاب غم آنکھوں کے منظر لے گیا
خامشی اوڑھے ہوئے دیوانہ میرے گاؤں کا
چن کے تیرے شہر کا ہر ایک پتھر لے گیا
مجھ کو پہلے کوئی پیاسا وادیٔ قطبین کا
اپنے کوزے میں سمو کر پھر سمندر لے گیا
اب کے میرے قتل کی سازش میں ہے وہ بھی شریک
مانگ کر مجھ سے ہی میرا دوست خنجر لے گیا
بس اسی اک بات پر روٹھے ہیں ارباب ہنر
غم زمانے بھر کا کیوں محبوب انورؔ لے گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.