کتنے دردوں میں دواؤں کی سی تاثیر بھی ہے
کتنے دردوں میں دواؤں کی سی تاثیر بھی ہے
تن بہ تقدیر ہی رہ جا کہ یہ تدبیر بھی ہے
سن کے اک خواب حسیں میرے معبر نے کہا
یہ ترا خواب ترے خواب کی تعبیر بھی ہے
مستویٰ اپنے لئے کس نے کہا کیسے چنا
اسی دنیا میں ہمالہ بھی ہے پامیر بھی ہے
وصل مدہوش کناں سے غم ہجراں خوش تر
کہ تصور میں ہے تو بھی تری تصویر بھی ہے
شوخیٔ حسن نے چھوڑی نہ کوئی راہ فرار
ایک ہی سانس میں انذار بھی تبشیر بھی ہے
تم خدا کو تو نہیں مانتے لیکن صاحب
لاکھ تدبیر کرو تاک میں تقدیر بھی ہے
دوش صیاد کے ترکش سے فضا سہم گئی
دیکھتا کون کہ ترکش میں کوئی تیر بھی ہے
یہ گرہ ناخن تدبیر سے کھلنے کی نہیں
پھر بھی نومید نہ ہو ناخن شمشیر بھی ہے
صلح للہ نہیں جنگ بھی فی اللہ نہیں
نعرہ بازاں کوئی شبر کوئی شبیر بھی ہے
اب تو بس گزری ہوئی عمر بسر کرتا ہوں
میری تنہائی خموشی بھی ہے تقریر بھی ہے
خود کلامی بھی نہ دے ساتھ اگر منہ سے کہوں
ایک اندوہ جو گہرا بھی ہے گمبھیر بھی ہے
امتحاں ہے کہ سزا اور سزا ہے جو یہ عمر
کتنی تقصیر ہے یا سچ کوئی تقصیر بھی ہے
اسی بیت نبوی کے فقرا ہم بھی ہیں
خلد بھی جس کے لیے آیۂ تطہیر بھی ہے
ہم نے بازار جدیداں میں بہت دن ڈھونڈا
کوئی غالبؔ بھی ہے اقبالؔ بھی ہے میرؔ بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.