کتنے دل ٹوٹے ہیں دنیا کا خبر ہونے تک
کتنے دل ٹوٹے ہیں دنیا کا خبر ہونے تک
کتنے سر پھوٹے ہیں دیوار میں در ہونے تک
ایک کانٹا جو نکلتا ہے تو سو چبھتے ہیں
امن تھا حوصلۂ فکر و نظر ہونے تک
ہم نے اپنے سے بھی سو بار محبت کی ہے
ہاں مگر دل میں کسی شوخ کا گھر ہونے تک
اب کہیں رقص جنوں ہے تو کہیں نغمۂ خوں
کتنی سونی تھی فضا زیر و زبر ہونے تک
آج سنتا ہوں وہی نقش قدم چومتے ہیں
جو بہت خوش تھے مرے شہر بدر ہونے تک
آنکھوں آنکھوں میں بھی کٹ جائے تو ہم راضی ہیں
یہ اندھیرے ہے بس اک رات بسر ہونے تک
جب جھلس دے گا زمانہ تو نہ امید نہ یاس
شاخ کو خوف ہے بے برگ و ثمر ہونے تک
اس قیامت کا جو پوچھو تو کوئی نام نہیں
ہم پہ جو بیت گئی تم کو خبر ہونے تک
اک کرن پھوٹے گی اک شوخ ہوا سنکے گی
اسی امید میں جاگے ہیں سحر ہونے تک
اور اک نعرۂ مستانہ کہ محفل جاگے
اور اک جام زمانے کو خبر ہونے تک
ان کے ہونٹوں پہ وہ معصوم تبسم کی شگفت
شعلۂ نرم بنی لمس نظر ہونے تک
میری بربادی بھی اک حشر ہے لیکن زیدیؔ
ارتقا رقص میں ہے حشر دگر ہونے تک
- کتاب : Nasiim-e-Dasht-e-Aarzoo (Pg. 94)
- Author : Ali jawad Zaidi
- مطبع : Ali jawad Zaidi (1982)
- اشاعت : 1982
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.