کتنے خیال رات کی پلکوں میں آئے تھے
کتنے خیال رات کی پلکوں میں آئے تھے
کرنوں نے سب چراغ سویرے بجھائے تھے
چلنا پڑا ہوا کو بھی دامن سنبھال کر
پھولوں کے ساتھ راہ میں کانٹے بچھائے تھے
پانی بچا کے رکھ لیا ویرانیوں کے بیچ
کس نے ہزاروں کوس سے پنچھی بلائے تھے
سرسبز وہ ہی پیڑ ہوا موڑ کی طرح
جس نے ہوا میں پنکھ سے پتے اڑائے تھے
رسم و رواج کی امر بیلوں نے ڈس لیا
ہم نے ازل سے خود ہی یہ بندھن بنائے تھے
تارے گئے کہاں یہ وہیں کے وہیں رہے
دن سے چھپائے جو وہی شب نے دکھائے تھے
بدلے لباس آدمی ہر رت کے رنگ میں
پتھر کے یگ میں آج کے کپڑے سلائے تھے
باہر فقیر نے کہیں ڈیرا لگا لیا
بازار سارے شہر کے ہم نے سجائے تھے
الفاظ کا ہجوم تھا پہچانتے کسے
کتنے ہی بن بلائے کتابوں میں آئے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.