کتنے سوال کتنے جوابوں کو اوڑھ کر
کتنے سوال کتنے جوابوں کو اوڑھ کر
سوتا ہوں میں سکون سے خوابوں کو اوڑھ کر
سچ مچ میں سو گیا کہ یہ غفلت کی نیند تھی
دریا کی چاہتوں میں سرابوں کو اوڑھ کر
کانٹوں کی تھی چبھن جو مجھے نیند آ گئی
سوتے ہیں لوگ کیسے گلابوں کو اوڑھ کر
گر مقصد حیات سمجھ میں نہ آ سکا
حاصل ہی کیا کہ سوؤں کتابوں کو اوڑھ کر
پالے ہوئے ہیں کتنی غلط فہمیوں کا درد
دریاؤں کو ہے زعم حبابوں کو اوڑھ کر
جب تجزیہ کیا تو خسارے ہی ہاتھ آئے
بیٹھا ہوں زندگی کے حسابوں کو اوڑھ کر
در ہے معافیوں کا کھلا مانگ لو رضاؔ
تم بھی تو دفن ہو گے ترابوں کو اوڑھ کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.