کتنی ہی بے ضرر سہی تیری خرابیاں
کتنی ہی بے ضرر سہی تیری خرابیاں
باصرؔ خرابیاں تو ہیں پھر بھی خرابیاں
حالت جگہ بدلنے سے بدلی نہیں مری
ہوتی ہیں ہر جگہ کی کچھ اپنی خرابیاں
تو چاہتا ہے اپنی نئی خوبیوں کی داد
مجھ کو عزیز تیری پرانی خرابیاں
جوں ہی تعلقات کسی سے ہوئے خراب
سارے جہاں کی اس میں ملیں گی خرابیاں
سرکار کا ہے اپنا ہی معیار انتخاب
یارو کہاں کی خوبیاں کیسی خرابیاں
آدم خطا کا پتلا ہے گر مان لیں یہ بات
نکلیں گی اس خرابی سے کتنی خرابیاں
ان ہستیوں کی راہ پہ دیکھیں گے چل کے ہم
جن میں نہ تھیں کسی بھی طرح کی خرابیاں
بوئیں گے اپنے باغ میں سب خوبیوں کے بیج
جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ساری خرابیاں
باصرؔ کی شخصیت بھی عجب ہے کہ اس میں ہیں
کچھ خوبیاں خراب کچھ اچھی خرابیاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.