کتنی صدیوں سے لمحوں کا لوبان جلتا رہا
کتنی صدیوں سے لمحوں کا لوبان جلتا رہا
عمر کا سلسلہ سانس بن کر پگھلتا رہا
ناپتا رہ گیا موج سے موج کا فاصلہ
وقت کا تیز دریا سمندر میں ڈھلتا رہا
بے نشاں منزلیں کس سفر کی کہانی لکھوں
تھک گئی سوچ ہر موڑ پر ذہن جلتا رہا
اجنبی راستوں کی طرف یوں نہ بڑھتے قدم
گرد بن کر کئی میرے ہم راہ چلتا رہا
رت بدلتے ہی دل میں نئی ٹیس پیدا ہوئی
زہر آلود موسم میں اک درد پلتا رہا
گیان کی آنچ نے کر دیا مسخ میرا وجود
یا میں برگد کے سائے میں خود کو بدلتا رہا
دائرے سے نکل کر بھی میں دائرے میں تھا قید
پھول زخموں کے چنتا رہا ہاتھ ملتا رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.