کتنی شدت سے تجھے چاہا تھا
کبھی کچھ اور نہیں سوچا تھا
کھوئے تھے ایسے تری چاہت میں
ٹوٹ کے ابر جنوں برسا تھا
میری ہر سوچ میں تھی تیری ہی سوچ
میرا ہر لمحہ ترا لمحہ تھا
جب بھی پڑتے تھے خیالوں کے بھنور
تیرا چہرہ ہی ابھر آتا تھا
ان دنوں جسم کی رگ رگ میں رواں
خوں کہاں خواہشوں کا دریا تھا
یاد ہے آج بھی سانسوں کی مہک
وقت اپنے لیے رک جاتا تھا
جب چمکتا تھا بدن کا سورج
دھوپ بن کر میں بکھر جاتا تھا
ٹوٹ جاتا تھا زمانوں کا سکوت
دفعتاً شام کو فون آتا تھا
رنگ پیراہن احساس تھی تو
میں نگاہ طلب تشنہ تھا
تو نسیم سحر موسم گل
میں کہ اک ٹوٹا ہوا پتا تھا
ریزہ ریزہ ہوا قصر پندار
بے طرح زور بدن ٹوٹا تھا
وار دی آج ترے در پہ انا
بوجھ صدیوں سے اٹھا رکھا تھا
راہیں بانہیں تو دریچے آنکھیں
یہ ترا شہر بھی تجھ جیسا تھا
عمر بھر اپنے ہی شعلوں میں جلا
میں کہ سورج کی طرح تنہا تھا
گرم ہیں رنگ کے بازار یہاں
اتنا سناٹا کہاں ہوتا تھا
پاؤں نیچے سے زمیں بھی نکلی
میں خلاؤں کی طرف لپکا تھا
صبح کی طرح وہ بے رنگ ہے اب
شامؔ کی طرح جسے چاہا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.