کتنوں نے بیساکھی تھامی کتنے کاندھے ٹوٹ گئے
کتنوں نے بیساکھی تھامی کتنے کاندھے ٹوٹ گئے
شہرت کے اس بوجھ کو ڈھو کر اچھے اچھے ٹوٹ گئے
ہر دشمن کو سمجھاتا ہوں مجھ سے بغاوت ٹھیک نہیں
پتھر سے ٹکرا کر جانے کتنے شیشے ٹوٹ گئے
وقت کی آندھی میں کچھ ہم نے ایسے پیڑ بھی دیکھے ہیں
وہ جن کی امید نہیں تھی وقت سے پہلے ٹوٹ گئے
وہ معصوم سی پگلی لڑکی بن بیاہے گھر بیٹھی ہے
اک غربت کی خاطر اب تک چھپن رشتے ٹوٹ گئے
تو اپنے اس حسن پہ اتنا ناز نہ کر سن حسن کے بت
ایک بڑھاپے کی ٹھوکر میں لاکھوں پتلے ٹوٹ گئے
ہم سے پوچھو پہنچے ہیں ہم کیسے کیسے منزل تک
تلووں کے اندر چبھ چبھ کر کتنے کانٹے ٹوٹ گئے
عشق وفا امیدیں چاہت نسبت قربت اے انوپمؔ
ہم سے تو بچپن میں ہی یہ سارے کھلونے ٹوٹ گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.