کیا ہے خود ہی گراں زیست کا سفر میں نے
کیا ہے خود ہی گراں زیست کا سفر میں نے
کتر لیے تھے کبھی اپنے بال و پر میں نے
یوں اپنی ذات میں اب قید ہو کے بیٹھا ہوں
خود اپنے گرد اٹھائے تھے بام و در میں نے
بدل گئے خط و معنی کئی زبانوں کے
جب اعتراف جنوں کر لیا ہنر میں نے
تو میری تشنہ لبی پر سوال کرتا ہے
سمندروں پہ بنایا تھا اپنا گھر میں نے
جو آج پھر سے مرے بال و پر نکل آئے
تو تیری راہ کے کٹوا دیے شجر میں نے
میں اس کی ذات پہ یوں تبصرہ نہیں کرتا
کہ پورے قد سے تو دیکھا نہیں مگر میں نے
میں چاند رات کا بھٹکا ہوا مسافر تھا
اندھیری رات میں تنہا کیا سفر میں نے
میں بے لباس تو آیا تھا با لباس گیا
یہ زاد راہ کمایا رہ ہنر میں نے
وفور حرف کے ورثے کی آرزو میں سعیدؔ
سنا ہے میرؔ اور مرزاؔ کبھی جگرؔ میں نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.