کہسار تو کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے
کہسار تو کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے
اپنی تلاش میں نئے منظر بھی آئیں گے
پامال راستوں سے بغاوت نہیں گناہ
قدریں نئی ہیں تو نئے رہبر بھی آئیں گے
صورت میں رنگ و نور کی، پھولوں کی، ہم کہیں
لوح جہاں پہ حرف مکرر بھی آئیں گے
نازک مزاج دیتے ہیں ہر لمحہ امتحاں
شیشوں سے جسم کے لئے پتھر بھی آئیں گے
جب جب بڑھے گی ظلمت غارت گر یقیں
آواز حق پہ کٹنے نئے سر بھی آئیں گے
بدلے ہیں حسن و عشق تو اقدار بھی نئی
لے کر نئے جواز ستم گر بھی آئیں گے
محرومیاں کہیں تو کہیں پر نوازشیں
کیا یہ سوال بر سر محشر بھی آئیں گے
آئے ہو شہر زر کی چکا چوند میں مگر
محلوں کے ساتھ راہ میں بے گھر بھی آئیں گے
مایوس ہو کے جہد مسلسل نہ چھوڑنا
زخموں کے بعد ہاتھوں میں گوہر بھی آئیں گے
ہیں پتھروں سے لوگ ہی اس شہر سنگ میں
کیا ان کے واسطے نئے منظر بھی آئیں گے
دیوی کو منصفی کی ملے گا قرار تب
جب اپنا سر جھکائے ستم گر بھی آئیں گے
خالدؔ ترا وجود گوارا نہیں جنہیں
بزم سخن میں کیا وہ سخنور بھی آئیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.