کوئی بچ نہیں پاتا ایسا جال بنتے ہیں
کوئی بچ نہیں پاتا ایسا جال بنتے ہیں
کیسے کیسے قصے یہ ماہ و سال بنتے ہیں
جانے کتنی صدیوں سے ہر برس خزاں رت میں
خشک پتے دھرتی پر زرد شال بنتے ہیں
آج کل نہ جانے کیوں ذہن پر تناؤ ہے
ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے جو خیال بنتے ہیں
شہر والے پوچھیں گے کچھ سبب جدائی کا
گھر کے خالی کونے بھی کچھ سوال بنتے ہیں
ہجر کے مناظر کو بھولنا ہی بہتر ہے
پیار کی طنابوں سے پھر وصال بنتے ہیں
حلقۂ محبت میں جو نظیر بن جائے
آؤ ہم وفاؤں کی وہ مثال بنتے ہیں
اب پرانی باتوں کو کیا کریدنا شاہدؔ
بھول کر گذشتہ کو اپنا حال بنتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.