کوئی بھی دنیا میں اپنا ہم نوا ملتا نہیں
نغمہ زن ہیں سیکڑوں نوحہ سرا ملتا نہیں
ہائے وہ دن جب کہ رونا بھی نشاط آہنگ تھا
اب ہنسی میں بھی ہمیں کوئی مزا ملتا نہیں
میں مٹا کیا پاس ناموس وفا بھی مٹ گیا
اس کے سنگ آستاں کو جبہہ سا ملتا نہیں
تیرے نغموں سے نہ ہوگی مجھ کو تسکیں عندلیب
نغمۂ غم سے مرے نغمہ ترا ملتا نہیں
شکر ان کے عشق کا لازم ہے اے دل شکر کر
درد تو ملتا ہے درد لا دوا ملتا نہیں
خاک رہتا اس ہجوم ناامیدی میں نشاں
مٹ گئے سب کوئی نقش مدعا ملتا نہیں
کرتے ہو نظارۂ بسمل سے کیوں صرف نظر
کیا شہیدان نگہ کا خوں بہا ملتا نہیں
ان کی بزم راز میں جا کر ہم ایسے کھو گئے
کچھ پتا از ابتدا تا انتہا ملتا نہیں
اس کا کعبے میں نہ ملنا خیر یہ اک بات ہے
بت کدوں میں کیوں وہ کافر آشنا ملتا نہیں
کرتے ہیں دزدیدہ نظروں سے وہ بسمل جس طرح
اس ادا کا کوئی خنجر آزما ملتا نہیں
جمع ہیں ہر چند سامان مسرت ہر طرف
چین اس دل کو مگر تیرے سوا ملتا نہیں
دیکھ کر اس کو جو صبر آئے تو ہم جانیں جنوں
صبر جب تک ہے کہ وہ صبر آزما ملتا نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.