کوئی دروازے پہ بیٹھا نہیں دیکھا جاتا
کوئی دروازے پہ بیٹھا نہیں دیکھا جاتا
کیا ترے شہر میں رستہ نہیں دیکھا جاتا
اوب جاتے ہیں تماشے سے تماشائی سب
پھر بھی گرتا ہوا پردہ نہیں دیکھا جاتا
یاد آ جاتا ہے آکاش سے رشتہ اپنا
گھر کا ٹوٹا ہوا زینہ نہیں دیکھا جاتا
دستکیں دینے کو یہ ہاتھ تڑپ اٹھتے ہیں
اس کے دروازے پہ تالا نہیں دیکھا جاتا
وہ سفر صرف جنازے کا سفر ہوتا ہے
جس میں اپنا یا پرایا نہیں دیکھا جاتا
آنکھ ہر شخص کو تصویر کا املا بولے
ایک ہی شخص کو اتنا نہیں دیکھا جاتا
جو بھی دل میں ہے وہ کاغذ پہ بنا دو یارو
آج کے دور میں چہرہ نہیں دیکھا جاتا
- کتاب : ہجر کی دوسری دوا (Pg. 96)
- Author : فہمی بدایونی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.