کوئی گردش میں ہے کیا دشت سے گھر تک اب بھی
کوئی گردش میں ہے کیا دشت سے گھر تک اب بھی
خاک اڑتی ہے مری حد نظر تک اب بھی
لے گئی کھینچ کے شاید انہیں مٹی کی مہک
اڑ کے پہنچے نہیں کچھ پھول شجر تک اب بھی
رزق بن جائیں گے کچھ دیر میں تاریکی کا
محو پرواز ہیں جو شمس و قمر تک اب بھی
اپنی بنیاد پہ قائم ہیں مرے ہوش و حواس
خون چڑھتا ہے مرے پاؤں سے سر تک اب بھی
جن کو پانے کی تمنا ہے ازل سے مرے ساتھ
ہاتھ پہنچا نہیں ان برگ و ثمر تک اب بھی
کھل نہیں پایا مری روح پہ صحرا ساجدؔ
یعنی محدود ہوں میں سیر و سفر تک اب بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.