کوئی ہوا نہ روکش ٹک میری چشم تر سے
کوئی ہوا نہ روکش ٹک میری چشم تر سے
کیا کیا نہ ابر آ کر یاں زور زور برسے
وحشت سے میری یارو خاطر نہ جمع رکھیو
پھر آوے یا نہ آوے نو پر اٹھا جو گھر سے
اب جوں سرشک ان سے پھرنے کی چشم مت رکھ
جو خاک میں ملے ہیں گر کر تری نظر سے
دیدار خواہ اس کے کم ہوں تو شور کم ہو
ہر صبح اک قیامت اٹھتی ہے اس کے در سے
داغ ایک ہو جلا بھی خوں ایک ہو بہا بھی
اب بحث کیا ہے دل سے کیا گفتگو جگر سے
دل کس طرح نہ کھینچیں اشعار ریختے کے
بہتر کیا ہے میں نے اس عیب کو ہنر سے
انجام کار بلبل دیکھا ہم اپنی آنکھوں
آوارہ تھے چمن میں دو چار ٹوٹے پر سے
بے طاقتی نے دل کی آخر کو مار رکھا
آفت ہمارے جی کی آئی ہمارے گھر سے
دل کش یہ منزل آخر دیکھا تو آہ نکلی
سب یار جا چکے تھے آئے جو ہم سفر سے
آوارہ میرؔ شاید واں خاک ہو گیا ہے
یک گرد اٹھ چلے ہے گاہ اس کی رہ گزر سے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0578
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.