کوئی خوشبو مٹی سے آنے لگی ہے
کوئی خوشبو مٹی سے آنے لگی ہے
زمیں پر وہ بوندیں گرانے لگی ہے
پلٹ آئی ہے پھر سے ساون کی بارش
کڑی دھوپ گھر سے ہٹانے لگی ہے
محبت محبت عقیدت عقیدت
یہ نغمے سہانے سنانے لگی ہے
کہاں سے نکل آئے ہیں یہ پتنگے
یہ کس کس کو بارش جگانے لگی ہے
محلے میں خاموش رہتی تھی لڑکی
جہاں سارا سر پر اٹھانے لگی ہے
دھنک سے لپک کر وہ ملنے لگی ہے
گماں سے بھی اب پار جانے لگی ہے
تمازت غموں کی جلاتی بہت تھی
مری آگ بارش بجھانے لگی ہے
یہ غفلت کے پردے بھی دل سے ہٹا دے
دعا لب پہ میرے یہ آنے لگی ہے
مہکؔ آنکھ سے ٹپکا پانی بہت ہے
ندامت سے آنسو بہانے لگی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.