کوئی کنایہ کہیں اور بات کرتے ہوئے
کوئی کنایہ کہیں اور بات کرتے ہوئے
کوئی اشارہ ذرا دور سے گزرتے ہوئے
مرے لہو کی لپک میں رہے وہ ہاتھ وہ پانو
کچھ آئنے سے کہیں ڈوبتے ابھرتے ہوئے
شرار بوسہ ہی اس سنگ لب سے ہو پیدا
کہ میرے سر میں کئی لفظ ہیں ٹھٹھرتے ہوئے
نہ سخت گیر تھا وہ اور نہ میں ہی بے ہمت
پر اس کو ہاتھ لگایا ہے آج ڈرتے ہوئے
جلائیں گے نم ساحل پہ کشتیاں اپنی
اس آب زار تماشا میں پانو دھرتے ہوئے
گزر ہی جائے گی سر سے کہیں تو موج ہوس
کبھی تو شرم اسے آئے گی مکرتے ہوئے
حواس میں ہیں کہیں خوف کے نشیب و فراز
جو خود سے بھاگتا ہوں راہ میں ٹھہرتے ہوئے
یہ کام اور تو اب کون ہی کرے گا یہاں
سمیٹتا بھی رہوں جسم کو بکھرتے ہوئے
مجھے تو رنج تھا سب سے کہیں زیادہ ظفرؔ
جو دیکھ لیتا مری سمت بھی وہ مرتے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.