کوئی ماڈل نہ کوئی آئیڈیل چاہیے ہے
کوئی ماڈل نہ کوئی آئیڈیل چاہیے ہے
آج بھی چاہیے تو ہی مجھے کل چاہیے ہے
قید کر بانہوں میں پھر زلف کو زنجیر بنا
اب کوئی کاٹ کپٹ اور نہ چھل چاہیے ہے
میری غفلت ہے ترے حسن مجسم کا زوال
مجھ کو تنہائی میں پر نور خلل چاہیے ہے
ایک مدت سے میں محبوس ہوں اپنے اندر
دم گھٹا جاتا ہے کچھ رد و بدل چاہیے ہے
وقت کا کوئی تقاضا نظر انداز نہیں
دل بضد ہے اسے حیرانی کا حل چاہیے ہے
روٹیاں سینکنے بیٹھے ہیں سیاست والے
ان کو تو برق و شرر رقص اجل چاہیے ہے
ایستادہ ہیں گلستاں میں بہائم ہر سو
طائرو غل کرو یہ نیک عمل چاہیے ہے
ان کو ماحول کی سنگینی کا احساس نہیں
جو یہ کہتے ہیں کہ رنگین غزل چاہیے ہے
عزت نفس کا مشکل ہے تحفظ یعنی
ایک فرقے کو یہاں جنگ و جدل چاہیے ہے
سرفرازؔ اب وہی ہٹ دھرم قلعے کا غاصب
کہہ رہا ہے کہ اسے تاج محل چاہیے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.