کوئی نظارہ نہ خود سے علاحدہ کیجے
کوئی نظارہ نہ خود سے علاحدہ کیجے
نظر نظر میں ہیں جلوے معائنہ کیجے
نظر کو پہلے جلا دے کے آئینہ کیجے
پھر اس کے بعد خودی کا مشاہدہ کیجے
خودی خدا سے جدا ہو تو بے خودی اچھی
وجود وہم ہے اس کو علاحدہ کیجے
نظر سے دوری بھی وجہ حضوریٔ دل ہے
حضور تجربہ اچھا ہے تجربہ کیجے
انہی کا در ہی تو ہے بزم ممکنات تمام
جبین شوق کو پھر وقف بارگہہ کیجے
سیاہ بخت کو چمکانا ہے اگر منظور
پھر اپنے نامۂ اعمال کو سیہ کیجے
تمام چشم کرم عام ہے زمانے پر
ادھر بھی چشم کرم اپنی گاہ گاہ کیجے
جو بے طلب ہو خوشی اس کا کیجئے ماتم
کبھی تو لذت غم کو بھی بامزا کیجے
حیاتؔ طبع روانی میں کوئی فرق نہیں
چمن تمہارا ہے جی بھر کے زمزمہ کیجے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.