کوئی قافیہ نہ ملا سکا کوئی وزن ہی کو گرا گیا
کوئی قافیہ نہ ملا سکا کوئی وزن ہی کو گرا گیا
میں تو اس زمین کی ہوں غزل جسے پھر کبھی نہ کہا گیا
اسے روک لوں مرے پاس اب نہ کوئی بھی ایسا کمال ہے
مجھے ناز تھا مرے عشق پر وہ یقیں ہلا کے چلا گیا
کروں شکریہ بھی ادا ترا مجھے رنج ہے یہ نہ ہو سکا
مری خوبیاں تو دکھائیں سب مرے عیب سارے چھپا گیا
کبھی اڑ سکوں میں فلک پہ بھی نہ ہو ڈر مجھے کسی بات کا
کیا ختم یوں مرا خوف سب مرا حوصلہ وہ بڑھا گیا
مرے شہر تیری فصیل پر جو لکھی ہوئی تھیں کہانیاں
ہے گلہ مجھے انہیں وقت کا جو عذاب تھا وہ مٹا گیا
نہ تو کہہ اسے یوں برا بھلا جو چلا گیا ہمیں چھوڑ کر
جو کبھی بھلائے نہ جا سکیں وہ سبق بھی ہم کو سکھا گیا
مجھے آفتاب کو دیکھ کر ہوا رنج کتنا کہ دھند میں
وہ چمک جو تھی اسے کس لئے وہ جہاں میں ہم پہ لٹا گیا
جسے دور کر کے سجیتؔ تو یوں ہی بھاگتا جو رہا صدا
نہ ادیب تھا نہ حبیب تھا تجھے آئنہ جو دکھا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.