کوئی ریت رقص میں مست تھی کہ ہوا چلی تھی سرور سے
کوئی ریت رقص میں مست تھی کہ ہوا چلی تھی سرور سے
ترے زاویے پہ ہی گھومتا ہوا آ گیا کوئی دور سے
تجھے اتنے پاس سے دیکھ لے کوئی اہل ہے نہ یہ سہل ہے
کبھی جسم گھلتا ہے آگ میں کبھی آنکھ جلتی ہے نور سے
مجھے کوئی فکر فنا بھی کیا میں تو جانتا ہوں بقا ہے کیا
تجھے ڈھونڈنے سے نہیں ملا میں نے پا لیا ہے شعور سے
کوئی اور مجھ میں ہنر نہ تھا مجھے بندگی نے بڑا کیا
اسے شہنشاہ نے بھی رد کیا وہ بھرا ہوا تھا غرور سے
مرے کاری گر ترے بس میں ہے یہ حیات بھی یہ ممات بھی
تری کن سے ہے مری ابتدا مری انتہا ترے صور سے
نہ ہی کوئی نغمہ نہ ساز بھی نہ ہی زندگی کا جواز بھی
تو کیا مٹ گیا ہے شیرازؔ بھی تری داستاں کی سطور سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.