کوئی سایہ نہ شجر یاد آیا
کوئی سایہ نہ شجر یاد آیا
تھک گئے پاؤں تو گھر یاد آیا
کھل اٹھے پھول سے صحراؤں میں
پھر وہ فردوس نظر یاد آیا
پھر مرے پاؤں میں زنجیر پڑی
پھر ترا حکم سفر یاد آیا
لوٹ جانے کو بہت دل مچلا
کیا پس گرد سفر یاد آیا
ساری امیدوں نے دم توڑ دیا
نخل بے برگ و ثمر یاد آیا
لاکھ چاہا تھا کہ وہ چشم غزال
پھر نہ یاد آئے مگر یاد آیا
خواب اور عالم بیداری میں
ریت پر ریت کا گھر یاد آیا
مرثیہ دن کا لکھا تھا راشدؔ
شب کو عنوان سحر یاد آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.