کوئی تو کہے بات قفس میں گل تر کی
کوئی تو کہے بات قفس میں گل تر کی
ہم نے تو گلستاں میں بھی کانٹوں پہ بسر کی
آنکھوں میں الاؤ سے دہکتے ہیں شب و روز
دل کھول کے روئے ہیں نہ بھرپور نظر کی
گلچیں بھی تہی دست ہے صیاد بھی حیراں
کیا دھوم بہاروں میں مچی شعبدہ گر کی
دامن ہی نہیں آج سراپا ہے دریدہ
سو زخم اٹھائے ہیں جو اک بار نظر کی
یہ زخم ہوا مصر کے بازار کا یوسف
قیمت نا پڑے گی یہاں کچھ عرض ہنر کی
اس پیڑ کا اے سنگ زنو پھل تو اٹھاؤ
اب بھی پس دیوار ہے رونق مرے گھر کی
تم رات کی گھمبیر سیاہی میں گھلے ہو
کب پھول کھلائے کہیں تائید سحر کی
رونق بھی گئی دل کا بھرم بھی گیا سرمدؔ
اب تو یہاں ڈستی ہوئی وحشت ہے کھنڈر کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.