کوئی امید تو اس دل کی بر آنے دیجے
کوئی امید تو اس دل کی بر آنے دیجے
رنج کی بات نہ اب کیجئے جانے دیجے
ان کے چپ رہنے سے گو جان گئی کیا غم ہے
جی اٹھوں گا میں ابھی لب تو ہلانے دیجے
ہم بھی کہتے ہیں کہ خط آئے گا تب سمجھیں گے
غیر گر ان کو پڑھائے تو پڑھانے دیجے
رفتہ رفتہ یہ پہنچ جائے گا اس کے در تک
کاسۂ سر کو مرے ٹھوکریں کھانے دیجے
غیر کا رنگ کسی طرح نہ جمنے دیں گے
ہم کو اس بزم میں نقشہ تو جمانے دیجے
اس ستم گر کی جفاؤں کا مزہ آتا ہے
آسماں ہم کو ستائے تو ستانے دیجے
دیکھ کر ابر بہاری پہ گلوں کی چشمک
چشم گلگوں سے ہمیں اشک بہانے دیجے
شب وہ بولے رخ روشن سے ہٹا کر زلفیں
لو فداؔ صبح ہوئی اب ہمیں جانے دیجے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.