کوئی زخم کھلا تو سہنے لگے کوئی ٹیس اٹھی لہرانے لگے
کوئی زخم کھلا تو سہنے لگے کوئی ٹیس اٹھی لہرانے لگے
یہ کس کی دعا کا فیض ہوا ہم کیا کیا کام دکھانے لگے
دل زار اسی بستی میں چل ترے نام کی سرسوں پھولی ہے
چاندی کی سڑک پر چلتے ہوئے اب پاؤں ترے کمھلانے لگے
کوئی ڈوب گیا تو کیا ڈوبا کوئی پار اترا تو کیا اترا
پر کیا کہیے دل دریا کی جو پاؤں دھرے اترانے لگے
ابھی شام ذرا سی مہکی ہے پر کیا کہئے کیا جلدی ہے
ابھی رات پڑاؤ بھی آگے ہے اور خواب بلاوے آنے لگے
تم کون سے حافظؔ و غالبؔ ہو تم میرؔ کبیرؔ کہاں کے ہو
تمہیں پہلا سبق بھی یاد نہیں اور فن کاری دکھلانے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.