کورے کاغذ پہ کئی نقش بنائے میں نے
کورے کاغذ پہ کئی نقش بنائے میں نے
اور پھر اک کے سوا سارے مٹائے میں نے
گل خود رو کی مہک جیسے کسی جنگل میں
ہائے وہ گیت جو تنہائی میں گائے میں نے
چمن فن میں رہیں گے جو ہمیشہ شاداب
ایسے گل بوٹے بھی چند ایک اگائے میں نے
خون انسان کا پانی کی طرح بہہ نکلا
اف تعصب کے وہ ہنگامے اٹھائے میں نے
اپنوں سے بڑھ کے مددگار و معاون جو تھے
دہر میں ایسے بھی دیکھے ہیں پرائے میں نے
ہائے کیا چیز تھی اے راہ محبت تو بھی
کانٹے جتنے تھے وہ پلکوں سے اٹھائے میں نے
حسن کے سینکڑوں رخ تم سے ابھی مخفی ہیں
حسن کے روپ ہزاروں ہی دکھائے میں نے
ایک بھی تیری نظر سے نہیں گزرا اے دوست
کتنے ایوان تخیل کے سجائے میں نے
شاعری بس میں مرے آئے تو جانوں مغمومؔ
عمر بھر اس کے بہت ناز اٹھائے میں نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.