کوششیں بے سود ہیں بے کار ہر تدبیر ہے
کوششیں بے سود ہیں بے کار ہر تدبیر ہے
حسن کی سرکار میں ہر آہ بے تاثیر ہے
وہ نظر کچھ اور شے ہے تیر پھر بھی تیر ہے
اصل ہے پھر اصل ہی تصویر پھر تصویر ہے
اے جنوں یہ تو بتا کمبخت تیرے پاؤں میں
دھجیاں دامن کی ہیں یا حلقۂ زنجیر ہے
سوئے ظن تھا جس کے منہ پر نطق کا اطلاق بھی
گفتگو سے اس کی حیراں خود لب تقریر ہے
ہر تمنا ہے مری اب بے نیاز مدعا
آج ہر نالہ مرا مستغنیٔ تاثیر ہے
ابتدا ہی ابتدا ہے انتہا اس کی نہیں
در حقیقت یہ محبت خواب بے تعبیر ہے
چل رہا ہے ان کی نظروں پر مرا ہر اختیار
سر سے پا تک زندگی بازیچۂ تقدیر ہے
روک لیتیں ہم کو کیا دیوار کی سنگینیاں
کچھ ادب زنداں کا ہے کچھ عظمت زنجیر ہے
جذب کر لیں عشق نے کیا حسن کی رنگینیاں
کل جہاں وہ جلوہ گر تھے اب مری تصویر ہے
اب قدم بڑھنے لگا حد تعین سے مرا
ذرہ ذرہ آج تیرے حسن کی تنویر ہے
رحم کر حالت پہ اپنی اے نگاہ التفات
آج میری ہر نظر اک حسن کی تصویر ہے
یہ ہے تکمیل محبت یا ستم کی انتہا
آج ہر نالہ مرا ایک پیکر تاثیر ہے
سر سے پا تک آرزوئے دوست بن کر اے منیرؔ
بے نیاز مدعا بن جا یہی اکسیر ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.