کچھ اب کی بار تو ایسا بپھر گیا پانی
کچھ اب کی بار تو ایسا بپھر گیا پانی
بہا کے لے گیا ہر شے جدھر گیا پانی
یہ المیہ بھی عجب ہے کہ دشت سے دریا
پلٹ کے پوچھ رہا ہے کدھر گیا پانی
کسی بھی نل میں نہیں کوئی ایک بوند مگر
ہر اک مکان کے کمروں میں بھر گیا پانی
دھنک کے رنگ ابھر آئے قطرے قطرے میں
تمہارے جسم کو چھو کر نکھر گیا پانی
ہے عام شہر میں دستور بے حجابی کا
ہر ایک شخص کی آنکھوں کا مر گیا پانی
میں تشنہ بخت اسے ہاتھ بھی لگا نہ سکا
مرے قریب سے ہو کے گزر گیا پانی
کسی بدن میں ہنر زیست کا نہیں عاصمؔ
ہوا بھی کیا جو سروں سے اتر گیا پانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.