کچھ ایسا ہے فریب نرگس مستانہ برسوں سے
کچھ ایسا ہے فریب نرگس مستانہ برسوں سے
کہ سب بھولے ہوئے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے
نہ اب منصور باقی ہے نہ وہ دار و رسن لیکن
فضا میں گونجتا ہے نعرۂ مستانہ برسوں سے
چمن کے نونہال اس خاک میں پھولیں پھلیں کیسے
یہاں چھایا ہوا ہے سبزۂ بیگانہ برسوں سے
یہ آنکھیں مدتوں سے خوگر برق تجلی ہیں
نشیمن بجلیوں کا ہے مرا کاشانہ برسوں سے
ترے قرباں ادھر بھی ایک جھونکا ابر رحمت کا
جبینوں میں گرہ ہے سجدۂ شکرانہ برسوں سے
سہیلؔ اب کس کو سجدہ کیجیے حیرت کا عالم ہے
جبیں خود بن گئی سنگ در جانانہ برسوں سے
- کتاب : غزل اس نے چھیڑی-5 (Pg. 95)
- Author : فرحت احساس
- مطبع : ریختہ بکس ،بی۔37،سیکٹر۔1،نوئیڈا،اترپردیش۔201301 (2018)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.